You are on page 1of 8

‫عزیز لکھنوی کی غزل گوئی‬ ‫ؔ‬

‫ادب زندگی اور تہذیب کا عکاس ہوتا ہے ۔ یہ خارجی حقیقتوں کو داخلی آئینے‬
‫میں پیش کرتا ہے ۔ ادب میں انسانی زندگی کی تصویر اس طرح پیش کی جاتی‬
‫ہے کہ اس میں انسانی جذبات و احساسات کے ساتھ ساتھ مشاہدات‪،‬تجربات اور‬
‫خیاالت کی جھلکیاں بھی نظر آتی ہیں ۔ شاعر یا ادیب کا تعلق کسی نہ کسی ایک‬
‫سماج اور کسی ایک ملک سے ضرور ہوتا ہے ۔ ٰلہذا اس سماج کی رسموناور‬
‫تہذیب کا‪،‬جس میں کہ ادیب پیدا ہوا اور پال بڑھا ہے‪،‬کا اثرادیب پرہونا الزم ہے ۔‬
‫چوں کہ شاعری بھی اظہار کا ایک ذریعہ ہے‪ ،‬اس لیے طلبہ میں اس کا ذوق و‬
‫شعور پیدا کرنے ‪ ،‬ا ن میں شعر فہمی کو ابھارنے کے لیے شاعری کا درس دیا‬
‫جاتا ہے ۔ اس کے مطالعے سے طلبہ میں نہ صرف شعری ذوق پیدا ہوتا ہے‬
‫‪،‬بلکہ ان میں اپنی تہذیب اور زبان سے ایک لگاؤ پیدا ہوتا ہے۔ ساتھ ہی وہ زبان‬
‫کی باریکیوں ‪ ،‬لفظوں کے در و بسط اور شعری محاسن سے بھی واقف ہوتے‬
‫جاتے ہیں۔‬
‫دبستان لکھنؤ کی خدمات اردو شاعری کے تعلق سے بڑی اہمیت کی حامل ہیں ۔‬ ‫ِ‬
‫چند کمیونکو اگر نظر انداز کر کے دیکھا جائے تو ہمیں اس میں بہت سی خوبیاں‬
‫بھی نظر آئیں گی۔ ان کمیوں سے الگ اس کا ایک ایسا کارنامہ ہے‪ ،‬جس کو اردو‬
‫زبان کبھی فراموش نہیں کرسکتی اور وہ ہے اصالحِ زبان ۔ اس بات سے انکار‬
‫میر اور سود ؔا کے زمانے میں زبان کی اصالح کا کافی کام ہوا‬ ‫نہیں کیاجاسکتا کہ ؔ‬
‫تھا‪ ،‬اس کے باوجود بہت سے نامانوس الفاظ کا استعمال ہورہا تھا ۔ ان سب کی‬
‫ناسخ کے سر ہے ۔ انہوں نے زبان کے قاعدے مقرر کیے اور‬ ‫ؔ‬ ‫اصالح کا سہرا‬
‫ان پر خود بھی عمل کیا اور شاگردوں سے بھی اس پر کاربند رہنے کی ہدایت‬
‫کی ۔ یہی وجہ ہے کہ لکھنوی دبستان کے شعرأ کی زبان نہایت صاف ستھری‬
‫عزیزلکھنوی کا تعلق بھی اسی دبستان سے ہے‪ ،‬جن کا‬ ‫ؔ‬ ‫اور رواں ہوتی ہے ۔‬
‫عزیز لکھنوی کے کالم میں اس دبستان کے‬ ‫ؔ‬ ‫مطالعہ ہم یہاں کرنے جارہے ہیں ۔‬
‫شعری معیارات کی پاسداری مکمل طور پر نظر آتی ہے۔ ہر شاعر کی اپنی ایک‬
‫طبعی و فطری جہت بھی ہوتی ہے‪ ،‬جس سے وہ کسی خاص صف میں شامل‬
‫ہونے کے باوجود بھی اپنا ایک انفرادی رنگ و آہنگ رکھتا ہے۔‬
‫نغمہ الہام بھی‬
‫وفور جذبات کے بے اختیار بہہ نکلنے کا نام بھی ہے اور ٔ‬ ‫ِ‬ ‫شاعری‬
‫۔ یہ زندگی اور حاالت کی روشن تفسیر بھی ہے اور تفریح طبع کا سامان بھی ۔‬
‫یہ ہمارے کانوں میں رس ہی نہیں گھولتی بلکہ دلوں پر اثر انداز ہوکر فکر و‬
‫احساس کو ایک خوشگوار کیفیت بھی عطا کرتی ہے ۔ ادب حقیقتا ً زندگی اور‬
‫تہذیب کا عکاس ہوتا ہے‪،‬جس میں خارجی حقیقتوں کو داخلی آئینے میں پیش کیا‬
‫جاتا ہے ۔ اس میں انسانی زندگی کی تصویر اس طرح پیش کی جاتی ہے کہ اس‬
‫میں انسانی جذبات و احساسات کے ساتھ ساتھ مشاہدات ‪ ،‬تجربات اور خیاالت کی‬
‫جھلکیاں بھی نظر آتی ہیں ۔‬
‫اردو شاعری کی سب سے مقبول صنف سخن کا نام غزل ہے ۔ غزل جسے کبھی‬
‫اردو شاعری کی آبرو کہا گیا تو کبھی ناپاک دفتر مگر اس نے ہمیشہ وقت کا‬
‫ساتھ دیا اور وقت ہی نے یہ ثابت کیا کہ جو خوبی غزل میں ہے ‪ ،‬وہ کسی‬
‫دوسری صنف ادب میں نہیں ۔ بیسویں صدی کے نصف اول میں جب غزل کو‬
‫جگر‬
‫ؔ‬ ‫اصغر گونڈوی اور‬
‫ؔ‬ ‫ترقی پسندوں نے تنقید کا نشانہ بنایا تو حسرت ؔ ‪ ،‬فانی ؔ ‪،‬‬
‫عزیز لکھنوی کا تعلق بھی اسی عہد‬ ‫ؔ‬ ‫مرادآبادی نے اسے ایک نئی قوت عطا کی ۔‬
‫سے ہے ۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ انہوں نے غزل کی آبیاری کہاں تک کی ۔‬
‫عزیز تخلص ہے ۔ ان کی والدت ‪1882‬‬ ‫ؔ‬ ‫عزیز لکھنوی کا پورا نام محمد ہادی اور‬
‫ؔ‬
‫میں لکھنؤ میں ہوئی ۔ ان کے اجداد کا وطن شیراز (ایران) تھا ۔ علم و فضل‬
‫عزیز کی عمر ابھی سات سال کی تھی کہ باپ کا سایہ‬ ‫ؔ‬ ‫خاندان میں موروثی تھا ۔‬
‫سر سے اٹھ گیا ۔ لیکن فطری شوق نے علم حاصل کرنے سے منہ نہ موڑنے دیا‬
‫اور مطالعہ کا شوق ہمیشہ قائم رہا ۔ اساتذہ کے دواوین اور کتب سے ان میں‬
‫شاعری کا ذوق پروان چڑھا ۔ غالبا ً طالب علمی ہی کے زمانے میں شاعری کا‬
‫ذوق پیدا ہوگیا تھا ۔ شاعری کی ابتدا فارسی سے ہوئی مگر بہت جلد اردو میں‬
‫شعر کہنے لگے اور اصالح سخن کے لیے صفی ؔ لکھنوی سے مشورہ کرتے‬
‫صفی کے شاگردوں میں اپنی ایک‬ ‫ؔ‬ ‫تھے ۔ بہت ہی کم عرصے میں انہوں نے‬
‫۔عزیز لکھنوی کا شمار اردو کے ان چند شعرأ میں ہوتا ہے‪،‬‬ ‫ؔ‬ ‫خاص جگہ بنالی‬
‫جنہوں نے جدید دور میں غزل کی نوک پلک سنوارنے کی کوششیں کیں ۔‬
‫ان کے کالم کا پہال مجموعہ ’’ گل کدہ ‘‘ کے عنوان سے ‪ 1919‬میں پہلی بار‬
‫اور ‪ 1931‬میں تیسری بار شائع ہوا۔ ‪ 1919‬کے بعد کی تخلیقات ان کی وفات کے‬
‫عزیز ‘‘ ان کے دو‬
‫ؔ‬ ‫بعد شائع ہوئیں ۔ اس کے عالوہ ’’ انجم کدہ ‘‘ اور ’’ قصائد‬
‫عزیز لکھنوی نے ہر صنف میں طبع آزمائی کی‬ ‫ؔ‬ ‫مجموعے اور شائع ہوئے ہیں ۔‬
‫ہے ۔ قصیدہ گوئی میں بھی آپ کا پایہ کافی بلند ہے لیکن ان کی اصل قدر و‬
‫اقبال ’’ گل کدہ ‘‘ پر تبصرہ کرتے‬
‫منزلت غزلوں کی وجہ سے ہی ہے ۔ محمد ؔ‬
‫میں آپ کے کالم کو ہمیشہ بہ نظر استفادہ دیکھتا ہوں ۔ ’’ ہوئے کہتے ہیں۔‬
‫اپنے مرکز کی طرف مائل پرواز تھا حسن‬
‫بھولتا ہی نہیں عالم تری انگڑائی کا‬
‫سبحان ہللا یہ بات ہر کسی کو نصیب نہیں ! موجودہ ادبیات ارد و کی نظر حقائق‬
‫مجموعہ غزلیات اس نئی تحریک کا بہترین ثبوت ہے ۔‬‫ٔ‬ ‫گل کدہ ۔ (‘‘ پر ہے اور یہ‬
‫) ص‪1931 ، 12 :‬‬
‫عزیز لکھنوی کے مراسم مرزا محمد عباس علی خاں جگر سے بڑے خاص تھے‬ ‫ؔ‬
‫۔ یہ ڈپٹی کمشنر اور رئیس اعظم لکھنؤ تھے۔ سات آٹھ سال تک ان کے خاص‬
‫معتمد رہے اور جگر کو اصالح سخن دیتے رہے ۔ اس کے بعد امین آباد ہائی‬
‫اسکول میں فارسی مدرس کے طورپر فرائض انجام دیتے رہے ۔ ‪ 1928‬میں‬
‫راجہ صاحب محمود آباد نے طلب کرلیا اور ولی عہد کا استاد مقرر کردیا ۔ اس‬
‫طرح زندگی کے نشیب و فراز سے گزرتے ہوئے اردو ادب کا یہ ستارہ ‪1935‬‬
‫میں غروب ہوگیا۔‬
‫ویسے تو ان کے شاگردوں کی تعداد کافی ہے مگر ان کے مخصوص شاگردوں‬
‫میں مرزا جعفر علی خاں اثر ؔ ‪ ،‬شبیر حسن خاں جوش ؔ ‪ ،‬جگت موہن الل رواں ؔ‬
‫آشفتہ کے نام قابل ذکرہیں ۔جس طرح ہر شخص کا ایک‬ ‫ؔ‬ ‫اور حکیم سید علی‬
‫فطری میالن ہوتا ہے ‪،‬اسی طرح شاعر کا بھی ہوتا ہے ۔ کسی کو تخیل آفرینی‬
‫سے لگاؤ ہوتا ہے تو کسی کو معنی آفرینی سے ۔ اسی طرح کسی کو فلسفے سے‬
‫شغف ہے تو کسی کو سادگی و پرکاری یا استفہام سے ۔ لیکن یہ کبھی ضروری‬
‫نہیں ہے کہ شاعر اپنے آپ کو کسی ایک دائرے تک محدود رکھے ۔حقیقت حال‬
‫یہ ہے کہ طبیعت کاجھکاؤ جس طرف ہوتا ہے ‪ ،‬رفتہ رفتہ وہ رنگ غالب ہونے‬
‫لگتا ہے ۔ یہی خاص رنگ آگے چل کر شاعر کی انفرادیت قائم کرنے میں معاون‬
‫ہوتا ہے ۔‬
‫عزیز نے غزل ‪ ،‬مرثیہ ‪ ،‬قصیدہ ‪ ،‬رباعی اور نظم میں اپنی شاعری کے جوہر‬ ‫ؔ‬
‫دکھالئے ہیں ۔ ان کے قصائد کا مجموعہ ’’صحیفۂ وال‘‘ اور ادبی ‪،‬اصالحی ‪،‬‬
‫نالہ جرس‘‘ کے نام سے شائع ہواہے ۔ اس‬ ‫قومی ‪ ،‬مذہبی نظموں کا مجموعہ ’’ ٔ‬
‫سے ان کی جوالنی طبیعت کا بخوبی اندازہ کیا جاسکتا ہے ۔ ’’ گل کدہ ‘‘ اور ’’‬
‫انجم کدہ ‘‘ کے مطالعے سے پہلی نظر میں جو بات ذہن میں آتی ہے‪ ،‬وہ ہے‬
‫غالب کا اثر ۔ اس لیے سب سے پہلے اسی رنگ کی بات کرنے کی کوشش کی‬ ‫ؔ‬
‫جاتی ہے ۔‬
‫غالب کا مطالعہ خاص طور سے کیا تھا اور اسی رنگ‬ ‫ؔ‬ ‫کالم‬
‫عزیز لکھنوی نے ِ‬ ‫ؔ‬
‫غالب کی پیروی میں نہ صرف نئے مضامین‪ ،‬خیاالت‬ ‫ؔ‬ ‫کو اپنے لیے اختیار کیا ۔‬
‫اور اسلوب بیان اختیار کیا بلکہ ان کی زمینوں میں کثرت سے غزلیں کہیں ۔ ایسا‬
‫غالب کا‬
‫ؔ‬ ‫عزیز کو بھی استفہام سے کافی دلچسپی تھی جو کہ‬ ‫ؔ‬ ‫محسوس ہوتاہے کہ‬
‫‪ :‬ایک خاص رنگ ہے ۔ مثالً‬
‫شرح جانکاہی عشق ایک غیر ممکن بات ہے کاٹ کر النا بہت آساں تھا جوئے‬
‫شیر کا‬
‫بعدمیرے میرا ساماں سب تبرک ہوگیا حلقہ حلقہ بٹ رہا ہے اب مری زنجیر کا‬
‫وہ نگاہیں کیا کہوں کیوں کر رگ جاں ہوگئیں‬
‫دل میں نشتر بن کے ڈوبیں اور پنہاں ہوگئیں‬
‫اک نظر گھبرا کے کی اپنی طرف اس شوخ نے‬
‫ہستیاں جب مٹ کے اجزائے پریشاں ہوگئیں‬
‫اگر کچھ ہم کو امید اثر ہوتی تو کیا ہوتا ؟ ہماری آہ کوئی کارگر ہوتی تو کیا ہوتا ؟‬
‫کیے ہیں ملک حسن و عشق میں برپا یہ ہنگامے خدائی تیرے قبضے میں اگر‬
‫ہوتی تو کیا ہوتا ؟‬
‫حسن بے پردہ ہے یا رب کیا ہی غیرت آفریں‬
‫پانی پانی ہوگیا ہے آئینہ تصویر کا‬
‫کسی کے وعدے پر اتنا جو انتظار کیا ارے یہ کون سا دل تھا کہ اعتبار کیا‬
‫عزیز پر‬
‫ؔ‬ ‫اوپر درج کیے گئے اشعار سے یہ بات بالکل صاف ہوجاتی ہے کہ‬
‫غالب کا رنگ اپنانے کی کوشش‬ ‫ؔ‬ ‫غالب کا اثر بہت زیادہ تھا ۔ انہوں نے نہ صرف‬
‫ؔ‬
‫کی بلکہ ان کی زمینوں میں غزلیں بھی کہی ہیں ۔ دیوان کے مطالعے سے ایسا‬
‫عزیز‬
‫ؔ‬ ‫غالب کو سامنے رکھ کر کہی گئی ہیں ۔‬
‫ؔ‬ ‫محسوس ہوتا ہے کہ بعض غزلیں‬
‫کایہ خاص رنگ ہے ‪،‬جو ان کی شاعری پر چھایا ہوا نظر آتا ہے ۔ مرزا جعفر‬
‫عزیز کی شاعری پر تبصرہ کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں کہ‬ ‫ؔ‬ ‫عزیز ’’‪ :‬حسین‬
‫ؔ‬
‫غالب سے متاثر تھے اور‬ ‫ؔ‬ ‫مرحوم تمام شعرائے سابقین میں سب سے زیادہ مرزا‬
‫‘‘ دلی کے رنگ سخن کو قبول کرنے کی انہوننے کامیاب کوشش کی تھی ۔‬

‫‪:‬تخیل آفرینی‬
‫عزیز کی شاعری کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ انہیں معنی آفرینی ‪ ،‬تخیل‬ ‫ؔ‬
‫آفرینی کا خاص ملکہ حاصل تھا۔ شاعری میں ایسا شاذ و نادر ہی ہوتا ہے کہ‬
‫شاعر کوئی نیا مضمون ‪ ،‬نیا خیال لے آئے ۔ تخلیق کار انہیں خیاالت کو‪ ،‬جو نظم‬
‫کیے جاچکے ہیں‪ ،‬ایک نئے طرز سے نظم کرکے اپنی تخیل آفرینی ‪ ،‬فکر کی‬
‫بلندی کی داد چاہتا ہے۔ اس کے لیے وہ کبھی دو مماثل چیزوں میں فرق تو کبھی‬
‫دو متفرق چیزوں میں مماثلت دکھانے کی کوشش کرتا ہے ۔ مثال کے طورپر‬
‫عزیز کے اشعار درج ہیں‬‫ؔ‬ ‫‪:‬‬
‫سوز غم سے اشک کا ایک ایک قطرہ جل گیا‬
‫آگ پانی میں لگی ایسی کہ دریا جل گیا‬
‫الحذر اب دور مجھ سے بیٹھتا ہے چارہ گر زخم پر رکھنے نہ پایا تھا کہ پھاہا جل‬
‫گیا‬
‫کسی نے نزع کی اس طرح گتھیاں سلجھائیں‬
‫سرہانے بیٹھ کے ہر سانس کا شمار کیا‬
‫آگے خدا کو علم ہے کیا جانے کیا ہوا ؟‬
‫بس ان کے رخ سے یاد ہے اٹھنا نقاب کا‬
‫موسی اثر تم نے بھی دیکھا کچھ تبسم‬ ‫ٰ‬ ‫اڑے وہ طور کے پرزے گرے وہ حضرت‬
‫ہائے پنہاں کا‬
‫ہر گل میں تو ہے تجھ میں ہزاروں تجلیاں دیوانہ کردیا مجھے فصل بہار نے‬
‫جو یہاں محو ماسوا نہ ہوا دور اس سے کبھی خدا نہ ہوا‬
‫ت امید و بیم سارا جھگڑا مٹ گیا تدبیر اور‬ ‫اک نگہ نے تیری طئے کی صور ِ‬
‫تقدیر کا‬
‫وہی ہمارے لیے پھول ہیں تر و تازہ‬
‫قفس میں خون کے آنسو اگر رالئے بہار‬
‫اشعار اور بھی نقل کیے جاسکتے ہیں کیوں کہ اس طرح کے اشعار ہر صفحے‬
‫غالب ہو کہ تخیل آفرینی ان کی‬‫ؔ‬ ‫پر ’’ گل کدہ ‘‘ میں بکھرے نظر آتے ہیں۔ رنگ‬
‫مثالیں کسی بھی غزل میں بہ آسانی مل سکتی ہیں ۔‬
‫‪:‬سہل ممتنع‬
‫اس کے عالوہ ان کے کالم کی ایک اور خصوصیت ہے اوروہ ہے سہل ممتنع ۔‬
‫شعر میں سہل ممتنع اس وقت قائم ہوتی ہے‪ ،‬جب شعر میں کوئی مشکل لفظ نہ‬
‫آئے اور شعر کی نثر بنانا مشکل ہوجائے یعنی شعر کی عبارت نہایت آسان ہو۔‬
‫‪:‬مثالً‬
‫د ِل ناداں تجھے ہوا کیا ہے ؟‬
‫آخر اس درد کی دوا کیا ہے ؟‬
‫غالب)ؔ (‬
‫عزیز کی شاعری میں اس کی مثالیں بے شمار ہیں ۔ اتنی سیدھی سادی ‪ ،‬عام فہم‬ ‫ؔ‬
‫زبان میں ایسی مضمون آفرینی کم شعرأ کے یہاں کے دیکھنے میں آتی ہے ‪،‬‬
‫عزیز لکھنوی کے کالم میں دیکھنے کو ملتی ہے۔ مالحظہ ہو‬ ‫ؔ‬ ‫‪ :‬جیسا کہ‬
‫تم نے چھیڑا تو کچھ کھلے ہم بھی بات پر بات یاد آتی ہے‬
‫ہائے کیا چیز تھی جوانی بھی‬
‫اب تو دن رات یاد آتی ہے‬
‫عزیز ؔؔ اس قدر ہم نے سجدے کیے خدا ان کو آخر بنا ہی دیا‬‫ؔ‬
‫گور غریباں سے لے لو‬ ‫سبق آکے ِ‬
‫خموشی مدرس ہے اس انجمن میں‬
‫جس کے مرنے کی ہو خوشی تم کو ایسی میت پہ کون روتا ہے‬
‫سانس بیمار کی اکھڑتی ہے آج قصہ تمام ہوتاہے‬
‫دل نے اک بات نہ مانی میری‬
‫مٹ گئی ہائے جوانی میری‬
‫ائے مرا حال پوچھنے والے تجھ کو اب تک مری خبر نہ ہوئی‬
‫ہم اسی زندگی پہ مرتے ہیں جو یہاں چین سے بسر نہ ہوئی‬
‫ہجر کی رات کاٹنے والے کیا کرے گا اگر سحر نہ ہوئی‬
‫سہل ممتنع کے تعلق سے اب تک جتنے اشعارنقل کیے گئے ‪،‬ان سے یہ اندازہ بہ‬
‫آسانی لگایا جا سکتا ہے کہ اس قدر عام فہم زبان میں ایسے مضمون نظم کرنا‬
‫عزیز ؔ اس طرح کے مضامین یوں باندھتے چلے جاتے ہیں کہ‬ ‫ؔ‬ ‫آسان نہیں‪ ،‬لیکن‬
‫احساس نہیں ہوتا کہ اس قدر سہل زبان میناتنے بلند مضامین کیوں کر نظم‬
‫عزیز کی سب سے بڑی شاعرانہ خصوصیت ہے ۔‬ ‫ؔ‬ ‫ہوسکتے ہیں ۔ یہی‬
‫‪:‬معنی آفرینی‬
‫شاعری کی خصوصیات کے سلسلے میں اب تک ہم نے تین خصوصیات کا ذکر‬
‫کیا ہے اور آخر میں اب معنی آفرینی پر گفتگو کرکے یہ سلسلہ ختم کیا جائے گا‬
‫‪:‬۔ معنی آفرینی کی مثالیں جو ایک نظر میں سامنے آئیں وہ درج کی جاتی ہیں‬
‫چشم تماشائی کا‬
‫ِ‬ ‫جلوہ دکھالئے جو وہ اپنی خود آرائی کا نور جل جائے ابھی‬
‫چشم تماشائی کا‬
‫ِ‬ ‫اف ترے حسن جہاں سوز کی پر زور کشش نور سب کھینچ لیا‬
‫زمانے کے حوادث خود مری فطرت میں داخل ہیں‬
‫مصیبت دل کی کیا کم ہے بالئے آسماں کیو ں ہو؟‬
‫سوز غم سے اشک کا ایک ایک قطرہ جل گیا‬ ‫ِ‬
‫!آگ پانی میں لگی ایسی کہ دریا جل گیا‬
‫اپنے مرکز کی طرف مائل پرواز تھا حسن‬
‫بھولتا ہی نہیں عالم تری انگڑائی کا‬
‫کردیا دل نے زندۂ جاوید‬
‫قی ِد ہستی سے میں رہا نہ ہوا‬
‫جوش جوانی بڑھا غرور ان کا‬ ‫ِ‬ ‫بقدر‬
‫کہ مے نے نشہ باندازۂ خمار کیا‬
‫اچھا ہوا کہ جلد یہ برباد ہوگیا‬
‫اتنے سے دل میں ساری خدائی کا درد تھا‬
‫درج باال اشعارسے آپ کو خود ہی معنی آفرینی کی تعریف کا اندازہ کیا جا سکتا‬
‫ہے ۔ جب شاعر لفظوں کو ایک نئے معنی دیتا ہے یا معمولی لفظوں سے غیر‬
‫معمولی کام لیتا ہے اور قاری اس کے فن کا قائل ہوئے بغیر نہیں رہ پاتا تو اسے‬
‫معنی آفرینی کہتے ہیں ۔‬
‫ادب زندگی اور تہذیب کا عکاس ہوتا ہے۔ چوں کہ ادیب یا شاعر کسی معاشرے‬
‫کا فرد ہوتا ہے‪ٰ ،‬لہذا اس معاشرے کی تہذیبی و معاشرتی زندگی کی عکاسی اس‬
‫کے فن پارے میں ہونا الزمی ہے۔ ادب و شعر کا مطالعہ قاری میں تہذیب و زبان‬
‫سے لگاؤ پیدا کرتا ہے‪،‬اس کے ساتھ ہی ساتھ زبان کی باریکیوں سے بھی واقفیت‬
‫عزیز لکھنوی کا کالم بھی انہینشعری خصوصیات کا آئینہ ہے‪ ،‬جو‬ ‫ؔ‬ ‫پیدا ہوتی ہے۔‬
‫دبستان لکھنؤ کے حوالے سے ہمارے شعری سرمائے کا حصہ رہی ہیں۔‬
‫عزیز لکھنوی جن کا نام محمد ہادی تھا ‪ 1882‬میں لکھنؤ میں پیدا ہوئے۔ اساتذہ‬ ‫ؔ‬
‫صفی لکھنوی سے‬ ‫ؔ‬ ‫کے دواوین کے مطالعے نے شعر گوئی کی طرف راغب کیا۔‬
‫اصالح سخن لی اور جلد ہی صف اول کے شعرأ میں شمار ہونے لگے۔ پہال‬
‫مجموعہ’’ گل کدہ‘‘ ‪ 1919‬میں شائع ہوا اور باقی تخلیقات یعنی ’’انجم کدہ‘‘‬
‫عزیز کی‬
‫ؔ‬ ‫اور’’ قصائد عزیز‘‘ؔ ان کی وفات (‪ )1935‬کے بعد شائع ہوئیں۔‬
‫شاعرانہ خصوصیات میں مضمون آفرینی ‪،‬تخیل اور تمثیل آفرینی کے ساتھ ہی‬
‫ساتھ سہل ممتنع کا‬
‫ذکربھی ضروری ہے‪،‬اس کے باوجودان کے کالم میں غضب کی معنویت پائی‬
‫غالب کے استفہامیہ انداز بیان کی انہوں نے کامیاب تقلید کی ہے۔‬ ‫ؔ‬ ‫جاتی ہے۔‬
‫کالسیکی غزل کی روایات کا سچا شعور ان میں پایا جاتا ہے۔ واردا ِتحسن و‬
‫ت دل و جگر اور احوا ِل فکر و نظر کا اظہار سادہ‪ ،‬سلیس‪ ،‬رواں‬ ‫عشق‪ ،‬کیفیا ِ‬
‫اورپر تاثیر زبان و بیان کے ساتھ‪ ،‬بڑی خوش اسلوبی سے ان کے یہاں نظم ہو‬
‫جاتے ہیں۔‬

You might also like